Wed 01-02-2023 08:05 AM
دبئی، 31 جنوری، 2023 (وام) ۔۔ دبئی فیوچر فاؤنڈیشن (ڈی ایف ایف) نے ایک رپورٹ میں 10 بڑے رجحانات کی نشاندہی کی ہے جو آنے والے سال میں معاشی شعبوں اور معاشروں کو تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔
"10 میگا ٹرینڈز شیپنگ آور فیوچر 2023"، کے عنوان سے جاری کردہ یہ رپورٹ دبئی فیوچر فاؤنڈیشن کی مستقبل بینی پر مبنی رپورٹس کی سیریزکا حصہ ہے۔ تازہ ترین رپورٹ مختلف عالمی رجحانات ک اجاگر کرتے ہوئے فیصلہ سازوں اور معاشرے کو مختلف شعبوں کے موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز سے آگاہ کرتی ہے۔
رپورٹ ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کو فروغ دینے پر توجہ کے ساتھ، معیشتوں اور معاشروں سے متعلق اہم رجحانات پر روشنی ڈالتی ہے۔ ان رجحانات کی نشاندہی ان کی اہمیت، پیچیدگی اور مطابقت کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
دبئی فیوچر فاؤنڈیشن کے سی ای او خلفان بلهول نے کہاکہ تکنیکی ترقی کی جس تیز رفتاری کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ کل نئے اور امید افزا مواقع کی راہ ہموار کرے گی۔ اس ترقی کو بہتر مستقبل کی تشکیل اور مختلف سرکاری، اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی شعبوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نئی رپورٹ حکومتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے موجودہ چیلنجز پر قابو پانے کے لیے فعال سلیوشنز وضع کریں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے پاس ایک منفرداور اہم ویژن ہے جو چیلنجز کو امید افزا مواقع میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری توجہ ہمیشہ نئے رجحانات کا مطالعہ کرنے اور اپنے مشترکہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے بہترین حل تلاش کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ ہمارا کام تمام شہروں اور کمیونٹیز کے لیے جامع حل وضع کرنا، جانچ اور تیاری کے ایک مشترکہ مقصد کے پیچھے لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے۔
بلهول نے مزید کہا کہ مستقبل کو وضع کرنے کے لیے ایک واضح وژن اور شہروں اور معاشروں کو درپیش رجحانات کے بارے میں جامع معلومات کی ضرورت ہے۔ ہم روزانہ جس مسلسل ترقی اور بنیادی تبدیلی کا مشاہدہ کررہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس مستقبل کے بارے میں غور سے سوچیں جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں ۔ اگر ہم ان رجحانات کو سمجھتے ہیں، تو ہم نئے مواقع کا ادراک کر سکیں گے، اور مختلف اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی شعبوں میں نئے ٹولز، مہارت اور صلاحیتوں کو بروئے کارلا سکیں گے۔
میٹریلز انقلاب
2023 میں ہمارے مستقبل کو تشکیل دینے والے 10 میگا ٹرینڈز کی رپورٹ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا میں روایتی وسائل سے میٹریلز آف فیوچر کے استعمال کی طرف منتقلی میں تیزی آئے گی۔ جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو انتہائی مخصوص خصوصیات کے کے حامل میٹریلز بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا ۔ یہ نیو میٹریلز پانچویں صنعتی انقلاب کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔
نیو میٹریلز اور صنعتی ان پٹس سے ہماری مستقبل کی ضروریات پوری ہوں گی۔ ان میں صارفین کی مصنوعات، سمارٹ تعمیراتی مواد، مصنوعی ایندھن، ماحول دوست بیٹریاں، اور شمسی سیل کے ڈیزائن میں زیادہ کارکردگی حاصل کرنے کے لیے سیمی کنڈکٹرز میں پیشرفت کے لیے پائیدار مادے شامل ہوسکتے ہیں۔
خام ڈیٹا کی قدر میں کمی
ڈیٹا کا پھیلاؤ عملی اطلاق کی حد تک پہنچ جائے گا۔ ڈیٹا پرائیویسی کے ضوابط متعارف ہونے سے بھی یہ عمل محدود ہو جائے گا۔ مواقع ابھرتے ہوئے کاروباری ماڈلز پر قابل اطلاق دستیاب ڈیٹا کے نئے اور بہتر استعمال پر منحصر ہوں گے۔ اشیا اور خدمات کی ڈیجیٹل تجارت منافع بخش ڈیٹا کے استعمال کی نمائندگی کرے گی جسے صنعتوں اور ممالک میں مجموعی ڈیٹا کے زیادہ سے زیادہ اشتراک سے فروغ دیا جاسکے گا ، جس سے زیادہ اقتصادی منافع حاصل ہوگا۔
تکنیکی کمزوریاں
رپورٹ میں بیان کردہ تیسرا عالمی رجحان انٹرنیٹ سے منسلک لوگوں اور مشینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سیکیورٹی سسٹم اور تکنیکی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ سسکو کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2023 تک، عالمی سطح پر فی کس 3.6 ڈیوائسز کے ساتھ 5ارب 30کروڑانٹرنیٹ صارفین (عالمی آبادی کا دو تہائی) ہوں گے۔
فارچون بزنس انسائٹ کے مطابق، عالمی سائبر انشورنس مارکیٹ 2029 تک 25.7 فیصد کے سی اے جی آر سے وسیع ہونے کی توقع ہے جب یہ 63ارب62 کروڑڈالر تک پہنچ جائے گی۔ایسینچر کی رپورٹ کے مطابق 2020 اور 2022 کے درمیان، رینسم ویئر اور بھتہ خوری کی کارروائیاں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔
توانائی کی حدود
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ 2022 میں توانائی کی قدر 24کھرب ڈالر تک پہنچنے کے بعد توانائی میں دنیا کی سرمایہ کاری مزید بڑھے گی ۔ کاربن پر مبنی توانائی انرجی مکس کا ایک اہم جزو رہے گی، لیکن سرمایہ کاری میں ترقی کا امکان تقریباً مکمل طور پر قابل تجدید ذرائع اور ڈیکاربونائزیشن ٹیکنالوجیز میں ہوگا۔بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سولر پی وی قابل تجدید عالمی صلاحیت کا 60 فیصد ہوسکتی ہے اور یوٹیلیٹی اسکیل پراجیکٹس 2022 میں پی وی کی مجموعی توسیع کا تقریباً دو تہائی حصہ ہیں۔
سیونگ ایکو سسٹم
رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی، سماجی اور گورننس (ای ایس جی) آڈٹس تیزی سے اہمیت اختیار کریں گے۔ سرمایہ کاروں، ریگولیٹرز اور ریٹنگ ایجنسیاں بڑی کارپوریشنز سے پائیداری میں اپنا کردار ادا کرنے کا تقاضا کررہی ہیں۔ یورپ اگرچہ تاریخی طور پر قیادت کررہا ہے، لیکن ایشیائی اور امریکی مارکیٹیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ کمپنیاں صرف اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ خالص مثبت بننے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
سرحد سے ماورا دنیا - فلوئیڈ معیشتیں
کووڈ کی وبانے ایک جاری رجحان کو تیز کیا ہے جہاں سپر ایپس تجارت، رقوم کی منتقلی اور روزگار کو مینیج کر رہی ہیں۔ امکان ہے کہ یہ رجحان تیز ہو جائے گا اور لاکھوں افراد سرحدوں کے پار کام کرنے والی گیگ اکانومی کی طرف راغب ہوں گے۔
دنیا بھر میں، ہم مرتبہ ، رسائی سے چلنے والے کاروباری ماڈلز ابھر رہے ہیں۔ صارفین کی جانب سے سامان ادھار لینے، گھر کرائے پر لینے، یا رسائی یا پیسے کے بدلے مائیکرو ہنر پیش کرنے کی طلب برح رہی ہے۔ " گیگ اکانومی - مستقبل کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی؟" کے عنوان سے ایک کیس اسٹڈی کے مطابق، 2023 میں عالمی گیگ اکانومی تقریباً ایک تہائی بڑھ کر 455 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
ڈیجیٹل ریالٹیز - ورچوئل اور ڈیجیٹل اسپیسز
ساتواں میگا ٹرینڈ میٹاورس، گیمنگ اور آن لائن سماجی تعاملات کے حوالے سے ہے، جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہو جائے گا۔ گیمنگ عالمی سطح پر اہم اقتصادی شعبوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ میٹاورس کی موجودہ سرمایہ کاری سیکڑوں اربوں کی ہے، اور یہ صرف شروعات ہے۔ گیمز اور آن لائن سماجی تعاملات زیادہ حقیقت پسندانہ اور ورچوئل دنیا میں مصنوعات کی پیشکشوں سے منسلک ہونے کے ساتھ ہی یہ مارکیٹیں بڑھتی رہیں گی۔
لِونگ ودآٹونامس روبوٹس
رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مسابقت میں اضافہ اور اخراجات میں کمی روبوٹ کی پیداوار کو فروغ اور مشینوں کے معاشی شعبوں میں انضمام کی راہ ہموار کرے گی ۔ گلوبل برین کمپیوٹر انٹرفیس کے اعدادوشمار کے مطابق، وبا کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر میں روبوٹکس کو اپنانے میں تیزی آئی۔ 2028 تک اس کے 94 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ کیرنی کے ایک آرٹیکل کے مطابق فیکٹریوں میں عالمی اوسط صنعتی روبوٹ کا استعمال2021 میں 126 روبوٹ فی 1ہزار ملازمین کی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جبکہ 2015 میں یہ تعداد 66 روبوٹس تھی۔ آپریشن میں پہلے ہی 35لاکھ صنعتی روبوٹ موجود ہیں۔
فیوچر ہیومینٹی
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انسانی معیار زندگی حکومتوں کے لیے تعلیمی ترقی اور ملازمتوں کی پیشکش اور ذہنی اور جسمانی صحت کو بڑھانے کے ذریعے چیلنجز کو کم کرنے کے لیے سب سے اہم محرک ہے۔ دنیا کی آبادی تعلیم، صحت، سماجی مصروفیات اور آبادی میں اضافے جیسی مشکلات سے گزر رہی ہے۔ مشترکہ چیلنجز کے حل موجود ہیں، لیکن حکمت عملی کو دوبارہ وضع کرنے کی ضرورت ہے اور پائیدار سماجی ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔
دماغی صحت کی تحقیق میں سرمایہ کاری اس کے اثرات کے مطابق نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن آن مینٹل ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دماغی صحت کی تحقیق پر سالانہ صرف 3ارب 70کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ ذہنی صحت کی تمام فنڈنگ کا نصف سے زیادہ 56 فیصد کلینکل یا اپلائیڈ ریسرچ کے بجائے بنیادی تحقیق پرخرچ ہو جاتا ہے۔
اعلی درجے کی صحت اور غذائیت
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ حفظان صحت کے ساتھ ساتھ پانی اور خوراک کی سیکورٹی عالمی تعاون کو مضبوط بنانے اور معاشروں کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا مشترکہ مقاصد رہیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، تمام کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سالانہ 18 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے 2030 تک 27کھرب ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ہیلتھ کیئر ریڈیئس کے اعداد و شمار کے مطابق، عالمی سطح پرحفظان صحت کے سرکاری اور نجی اخراجات 2020سے 2024 کے درمیان 3.9 فیصد سی اے جی آر سے بڑھنے کا تخمینہ ہے، جو 2024 تک 100 کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ لیکن دنیا بھر میں تین میں سے ایک شخص پینے کے صاف پانی تک ابھی تک رسائی سے محروم ہیں اور ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 3 ارب لوگوں کے پاس ہاتھ دھونے کی سہولیات نہیں ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، 2022 میں، 45 ممالک میں 5کروڑ افراد غذائی قلت کے دہانے پر تھےاور 15کروڑ30 لاکھ افراد کی مدد کے لیے 24ارب 50 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔
ترجمہ۔تنویرملک
http://wam.ae/en/details/1395303123832