Thu 14-09-2023 11:54 AM
شارجہ،14ستمبر، 2023 (وام) ۔۔ ایک چینی ماہر معاشیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی میڈیا کوریج کو سرفہرست رہنا چاہیے اور اس میں اتار چڑھاؤ نہیں ہونا چاہیے۔انکا ماننا ہے کہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے آگاہ کرے اور اس کے لیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرے۔ 12ویں انٹرنیشنل گورنمنٹ کمیونیکیشن فورم کے پہلے دن امارات نیوز ایجنسی (وام) سے بات کرتے ہوئے چین کی سنگھوا یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ڈیوڈ ڈاؤکوئی لی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوریج اولین ترجیح ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہمارے سیارے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ عوام کو خطرات اور کارروائی کی ضرورت سے آگاہ کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے معاشی اثرات کے بارے میں پروفیسر لی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اور مثبت دونوں طرح کے اقتصادی اثرات ہیں۔ منفی اثرات میں بنیادی ڈھانچے اور املاک کو پہنچنے والے نقصان، جانوں کا نقصان، اور معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹیں شامل ہیں۔ مثبت اثرات میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز، جیسے سولر پینلز اور الیکٹرک کاروں میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ انہوں نے کہا موسمیاتی تبدیلی اب بہت بڑی سرمایہ کاری پر زور دے رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار اور حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے طریقوں جیسے کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع تیار کرنا اور اخراج کو کم کرنےمیں سرمایہ کاری کر رہی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کی تمام معیشتوں میں بہت سے ممالک میں مثال کے طور پر چین میں سولر پینلز اور الیکٹرک کاروں کی شکل میں بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ چین واحد ملک نہیں ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ کئی دوسرے ممالک بھی قابل تجدید توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "چین اب ایک سال میں تقریباً 10 ملین الیکٹریکل کاریں تیار کر رہا ہے اور باقی دنیا کو سب سے زیادہ تعداد میں الیکٹریکل کاریں برآمد کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال الیکٹریکل کاروں کی چینی فروخت تقریباً 8 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ پروفیسر ڈاؤکوئی نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں اپنی امید کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ سرمایہ کاری، نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مدد کرے گی۔ انہون نے کہا کہ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تبدیل کرنے کے لیے ممالک کو اکٹھے ہونے اور نئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے ۔ پروفیسر لی نے سولر پینلز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ہائیڈروجن کو میتھانول بنانے یا کاروں کو چلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی صحراؤں کو سبز نخلستانوں میں تبدیل کرنے اور نئے اقتصادی مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ترجمہ: ریاض خان ۔ https://www.wam.ae/en/details/1395303197087